پیچھے جو Ú©Ú†Ú¾ بیان ہوا اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب نہ اللہ کا انکار کرتے تھے، نہ وہ رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ دعوت کا انکار ان ï·º Ú©ÛŒ ذات Ú©ÛŒ وجہ سے کرتے تھے نہ ہی وہ اعمال سے بھاگتے تھے۔ مزید یہکہ وہ صرف بے جان پتھروں Ú©ÛŒ عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان Ú©ÛŒ سوچ اور فکر اس سلسلے میں یہ تھی کہ یہ بت اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور واسطہ ہیں۔ آیئے ذرا اس چیز Ú©Ùˆ مزید سمجھتے ہیں کہ بت پرستی کیا ہے؟ بت پرست کس چیز Ú©ÛŒ عبادت کرتے ہیں؟ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو یقینا شرک Ú©ÛŒ Ø+قیقت بھی Ú©Ú¾Ù„ کر سامنے آجائے گی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن Ú©Ùˆ ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درØ+قیقت مٹی Ú©ÛŒ مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس Ú©Ùˆ اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر Ú©Ùˆ سجدہ کرتے تھے۔اسی Ú©Û’ نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام Ù„Û’ کر اپنی Ø+اجتوں میں اس Ú©Ùˆ پکارتے تھے تو درØ+قیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی Ú©ÛŒ بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی Ú©ÛŒ وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں Ú©ÛŒ پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس Ú©Û’ عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا Ø+قیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
Ø+ضرت عیسیؑ اور ان Ú©ÛŒ ماں Ú©Ùˆ معبود بنایا گیا
واذ قال الله یٰعيسى ابن مريم Ø¡ انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون الله قال سبØ+انك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بØ+Ù‚ ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي ولا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب (المائدۃ: 116)
ترجمہ:اور (اس وقت Ú©Ùˆ بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم Ù†Û’ لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ Ú©Û’ سوا مجھے اور میری والدہ کوالہ مقرر کرو؟ وہ کہیں Ú¯Û’ کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے Ú©Ú†Ú¾ Ø+Ù‚ نہیں اگر میں Ù†Û’ ایسا کہا ہوگا تو تجھ Ú©Ùˆ معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے Ø´Ú© تو علام الغیوب ہےØ+ ضرت عیسیؑ اور ان Ú©ÛŒ والدہ Ú©Ùˆ الہ بنایا گیا جب کہ نہ عیسیؑ اور نہ ہی مریمؑ بت تھے۔ اور عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ درØ+قیقت Ø+د سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس Ú©ÛŒ بنیادی وجہ Ø+ضرت عیسیؑ Ú©Û’ معجزات ہیں۔ اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں Ù†Û’ Ø+ضرت عیسی علیہ السلام Ú©Ùˆ ان صفات کا Ø+امل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔ Ø+ضرت عیسی علیہ السلام Ù†Û’ ماں Ú©ÛŒ گود ہی میں اعلان کردیا تھا:
اني عبد الله (مریم:30)
ترجمہ: میں اللہ کابندہ ہوں
لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔ یہی بےلگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام کلمہ گو مشرک بھی کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور برزگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔
علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا
اتخذوا اØ+بارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيØ+ ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واØ+دا لا اله الا هو سبØ+انه عما يشركون۔ (التوبہ: 31)
ترجمہ:انہوں (یہودی Ùˆ نصاریٰ) Ù†Û’ اپنے علما اور مشائخ اور مسیØ+ ابن مریم Ú©Ùˆ الله Ú©Û’ سوا رب بنا لیا Ø+الانکہ ان Ú©Ùˆ یہ Ø+Ú©Ù… دیا گیا تھا کہ ایک الہ Ú©Û’ سوا کسی Ú©ÛŒ عبادت نہ کریں۔ اس Ú©Û’ سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں Ú©Û’ شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو Ø+ضرت عدیؓ بن Ø+اتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، Ù†Û’ رسول ï·º سے دریافت کیا کہ ہم Ù†Û’ تو کبھی علما اور صوفیا Ú©ÛŒ عبادت نہیں Ú©ÛŒ تو قرآن پاک Ù†Û’ ایسا کیوں کہا؟ آپ ï·º Ù†Û’ جواب دیا علما اور صوفیوں Ù†Û’ جو چیزیں ازخود Ø+لال Ùˆ Ø+رام کردی تھیں (یعنی Ù…Ø+ض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… سے) تم اس Ú©Ùˆ Ø+جت نہیں مانتے تھے؟ Ø+ضرت عدیؓ Ù†Û’ کہا ضرور سمجھتے تھے۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا:
فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)
ترجمہ:یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
چونکہ Ø+لال Ùˆ Ø+رام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر Ú©Ùˆ شریک ٹھہرانا اس Ú©ÛŒ عبادت کرناہے۔ اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ رب بنایا او مشرک ہوئے۔ Ø+الانکہ علما Ùˆ صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی Ø+ضرت عیسیٰ اور ان Ú©ÛŒ والدہ بت تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ Ú©Û’ نیک بندوں Ú©Ùˆ اللہ Ú©ÛŒ کسی صفت میں شریک کرنا اس Ú©Ùˆ الہ بنانا ہے جو شرک ہے۔
نوٹ: یہاں اØ+بار Ùˆ رھبان سے مراد وہ علما Ùˆ صوفیا ہیں جو Ù…Ø+ض اپنی رائے سے دین میں Ø+لال Ùˆ Ø+رام قرار دیتے تھے۔ البتہ علمائے Ø+Ù‚ کسی مسئلے میں کوئی Ø+Ú©Ù… بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن Ùˆ سنت Ú©ÛŒ روشنی میں Ø+Ú©Ù… فرماتے ہیں۔
Ø+ضرت نوØ+Ø‘ Ú©ÛŒ اولاد Ú©Ùˆ معبود بنایا گیا
وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا وقد اضلوا كثيرا ولا تزد الظالمين الا ضلالا
(نوØ+: 23-24)
ترجمہ:اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا
ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں Ú©Û’ نام تھے جن Ú©ÛŒ قوم نوØ+ عبادت کرتی تھی۔ ان بتوں Ú©ÛŒ Ø+قیقت کیا تھی اس Ú©ÛŒ خبر صØ+ÛŒØ+ بخاری Ú©ÛŒ اس روایت سے ملتی ہے:
اسماء رجال صالØ+ين من قوم نوØ+ فلما هلكوا اوØ+Ù‰ الشيطان الى قومهم: ان انصبوا الى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم ففعلوا فلم تعبد Ø+تى اذا هلك اولئك ونسخ العلم عبدت
ترجمہ: یہ نام قوم نوØ+ Ú©Û’ نیک لوگوں Ú©Û’ تھے، جن Ú©ÛŒ وفات Ú©Û’ بعد شیطان Ù†Û’ (اس قوم Ú©Û’) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) Ú©Û’ بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں Ú©Û’ انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان Ú©ÛŒ یاد آتی رہے)ØŒ لوگوں Ù†Û’ اسی طرØ+ کیا لیکن ان مجسموں Ú©ÛŒ عبادت نہیں Ú©ÛŒ یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں Ù†Û’ یہ بت بنائے تھے مرگئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں Ú©ÛŒ عبادت کرنے Ù„Ú¯Û’Û”
ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔
نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا
افرايتم اللات والعزى (النجم: 19)
ترجمہ:بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
ترجمہ:لات اس بت کا نام تھا جس Ú©ÛŒ مشرکین عرب عبادت کرتے تھے۔ اس آیت Ú©ÛŒ تفسیر میں Ø+ضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
كان اللات رجلا يلت سويق الØ+اج (صØ+ÛŒØ+ البخاری)
ترجمہ:لات ایک آدمی کا نام تھا جو Ø+اجیوں Ú©Ùˆ ستو گھول کر پلاتا تھا۔
جب اس کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے اس کی قبر پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی عبادت ہونے لگی (ابن کثیر)۔ یہاں بھی وہی بات نظر آئے گی کہ بت پرستی اصل میں قبر پرستی ہے جس کی بنیاد شخصیت پرستی ہے۔ بت تو ایک ظاہری شکل ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ہوتی ہے جس کی عظمت کم عقلوں کی عقلوں کو ماؤوف کردیتی ہے اور وہ اس عظمت کو اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اس کو اللہ کے کاموں میں دخل انداز سمجھنے لگتے ہیں۔
فرشتوں کو معبود بنایا گیا
ويوم ÙŠØ+شرهم جميعا ثم يقول للملائكة اهؤلاء اياكم كانوا يعبدون () قالوا سبØ+انك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون (سبا: 40-41)
ترجمہ:اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔
مشرکین عرب Ù†Û’ فرشتوں Ú©Ùˆ معبود بنا لیا تھا جن Ú©Ùˆ اپنی Ø+اجتوں Ú©Û’ وقت پکارا کرتے تھے۔
جنوں کو معبود بنایا گیا
عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس Ú©Û’ متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس Ú©ÛŒ عبادت Ú©ÛŒ جاتی تھی۔ فتØ+ مکہ Ú©Û’ بعد رسول اللہ ï·º Ù†Û’ Ø+ضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے Ú©Û’ لیے بھیجا۔ انہوں Ù†Û’ جب اس Ú©Û’ مبعد Ú©Ùˆ منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس Ú©Ùˆ Ø+ضرت خالدؓ Ù†Û’ قتل کرڈالا۔
اہل عرب Ú©Û’ دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتØ+ ہوا تو ایک ادھیڑ عمر Ú©ÛŒ ایک Ø+بشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ خدمت میں Ø+اضر ہوئی۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا:
تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)
ترجمہ:یہ نائلہ ہے یہ اس سے ناامید ہوچکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔
یہ نائلہ بھی عزی Ú©ÛŒ طرØ+ کوئی پری یا جنی تھی جس Ú©Û’ بت Ú©ÛŒ مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔
Ø+ضرت ابراہیمؑ اور Ø+ضرت اسمعیلؑ Ú©ÛŒ عبادت Ú©ÛŒ گئی
مشرکین عرب Ù†Û’ کعبۃ اللہ Ú©Û’ اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ سنن ابوداؤد Ú©ÛŒ ایک روایت میں آتا ہے کہ فتØ+ مکہ کےبعد جب رسول اللہ ï·º Ù†Û’ کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ Ù†Û’ Ø+Ú©Ù… فرمایا:
فاخرج صورة ابراهيم وإسمعيل
ترجمہ: ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
قبر کی عبادت کی گئی
Ø+ضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام Ø+بیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں Ù†Û’ ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں Ù†Û’ Ø+بشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔ انھوں Ù†Û’ اس کا تذکرہ نبی کریم ï·º سے بھی کیا۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس Ú©ÛŒ قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں قیامت Ú©Û’ دن تمام مخلوق میں برے ہوں Ú¯Û’Û” (صØ+ÛŒØ+ بخاری، کتاب الصلوۃ)
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:
اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا امام مالک)
ترجمہ:اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:
وقال فرعون ياايها الملا ما علمت لكم من اله غيري (القصص: 38)
ترجمہ:اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الہ نہیں جانتا
ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
واتخذوا من دون الله آلهة لعلهم ينصرون (یس:74)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں
واتخذوا من دون الله آلهة ليكونوا لهم عزا (مریم: 81)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔
Ø+ضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ Ú©Û’ ان اقوال Ú©Ùˆ غور سے پڑھیں:
ظاہر Ùˆ باطن دونوں طرØ+ Ú©Û’ شرک Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ والوں میں سے ہوجا۔ بتوں Ú©ÛŒ پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔ (الفتØ+ الربانی مجلس Û³Û´)
فتوØ+ الغیب میں فرماتےہیں:صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس Ú©ÛŒ پیروی کرنا اور خدائے عز وجل Ú©Û’ ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں Ú©ÛŒ کسی چیز Ú©Ùˆ اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ Ú©Û’ سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس Ú©Û’ سوا اس Ú©Û’ غیر Ú©ÛŒ طرف مائل ہوا تو بے Ø´Ú© تو Ù†Û’ غیر خدا Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔ ( فتوØ+ الغیب وعظ Û·)
خلاصہ یہ ہے کہ بتوں Ú©ÛŒ اصل صاØ+ب بت اور تصویروں Ú©ÛŒ اصل صاØ+ب تصویر تھے۔ عقیدت پتھر Ú©Û’ بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان Ú©Û’ پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اصلا بتوں Ú©ÛŒ عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان Ú©Û’ پیچھے شخصیات تھیں جن Ú©ÛŒ عظمت Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ وہ جھکتے تھے جن Ú©Û’ متعلق یہ عقیدہ قائم کرلیا گیا تھا کہ یہ اللہ Ú©Û’ اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ ان Ú©Û’ واسطے سے ہم اپنی Ø+اجتوں میں اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ راضی کرسکتے ہیں۔ یہی سب Ú©Ú†Ú¾ آج بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو Ú©Ú†Ú¾ Ø+یثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب Ú©Ú†Ú¾ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شرک Ú©ÛŒ ابتدفرد یا مکان Ú©ÛŒ عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہوجائے تو عبادت Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ اختیار کرلیتی ہے۔
​
(جاری ہے)